بھوک کی شدت نے ماں اور بیٹے کی جان لے لی

بھوک کی شدت نے ماں اور بیٹے کی جان لے لی

بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی علاقہ جبل پور میں بھوک کی شدت کی وجہ سے ایک ماں اور بیٹا جان کی بازی ہارگئے۔

تفصیلات کے مطابق بھارتی میڈیا کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بھارت میں جبل پور کے علاقے رنجی سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان میں دو افراد کے بھوک کی وجہ سے مرنے کا واقعہ پیش آیا ہے۔ اس واقع کے مطابق ایک 75 سالہ خاتون اپنے 55 سالہ بیٹے کے ساتھ بھوک کی شدت کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بھوک کی وجہ سے مرنے والوں کے پڑوسیوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بھوک کی وجہ سے انتقال کرنے والے خاتون بہت بوڑھی ہو چکی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی پنشن بھی نہیں لے پا رہی تھی اور ان کا 55 سالہ بیٹا کرونا وائرس کی بدولت لاک ڈاؤن کی وجہ سے بری طرح بے روزگار ہو چکا تھا۔ جس کی وجہ سے اکثر ان کے گھر میں فاقے رہتے تھے۔

بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ پڑوسیوں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ انتقال کرنے والی بوڑھی عورت کا نام گومتی کال تھا۔ گومتی کال اور اس کا بیٹا گھر میں کچھ بھی نہ ہونے کی وجہ سے فری میں ملنے والے راشن سے گزارا کیا کرتے تھے تاہم بھارت میں کورونا وائرس کی شدت کی وجہ سے لاک ڈاؤن لگا دیا گیا تھا جس کی وجہ سے ماں اور بیٹے کو فری راشن بھی ملنا بند ہوگیا تھا۔ جس پر دونوں ماں اور بیٹا کئی روز فاقوں کی صورت میں گزارا کرتے تھے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق جاں بحق ہونے والے ماں اور بیٹا کے پڑوسیوں کا کہنا تھا کہ ہم نے دونوں ماں اور بیٹے کو ضرورت کی کوئی بھی چیز مانگنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ ایک دن تاہم ان کا بیٹا کسی پڑوسی کے ہاں سے اٹا مانگ کر لایا جس کہ کچھ دن بعد گھر سے بدبو آنے لگی۔

اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے پڑوسیوں نے ریسکیو اہلکاروں کو اطلاع دی۔ ریسکیو اہلکاروں کے پہنچنے پر جب گھر کی تلاشی لی گئی تو ماں مردہ حالت میں پائی گئی اور بیٹے کی حالت بھی شدید تشویش ناک تھی۔ تاہم بیٹے کو قریب ہاسپٹل میں منتقل کیا جارہا تھا کہ راستے میں اس کی بھی موت واقع ہو گئی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق اس واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے تمام اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مودی سرکار کو بھوک کی وجہ سے مرنے والے ماں اور بیٹے کا اصل قاتل قرار دیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار غریبوں کو راشن تقسیم کرنے میں ناکام رہی ہے۔

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *